مشاوَرتی اجلاس تحفظِ سنت دارالعلوم دیوبند
بتاریخ: یکم ربیع الثانی ۱۴۳۴ھ مطابق ۱۳/ فروری ۲۰۱۳ء بروز بدھ
اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ
الْعَالَمِیْنَ وَالصَّلٰوةُ وَالسَّلاَمُ عَلٰی سَیِّدِنَا
مُحَمَّدٍ وَّ آلِہ وَأصْحَابِہ وَمَنْ تَبِعَھُمْ بِاحْسَانٍ الٰی یَوْمِ
الدِّیْنِ ․
أمّا بعد ! اللہ رب العزت کا بے پایاں
احسان وکرم ہے کہ اس نے ہمیں ایمان کی عظیم نعمت عطا
فرمائی اور سیدالمرسلین حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وسلم کے مقرر فرمودہ منہاجِ ہدایت مَا أنَا عَلَیْہِ
وَأصْحَابِیْ پر کاربند رہنے
والے قافلہٴ خیر اَھْلُ
السُّنةِ وَالْجَمَاعَة
میں شامل فرمایا اور اس طرح عقائد واعمال کی تفصیلات میں
حضراتِ صحابہ رضی اللہ عنہم اور سلف صالحین رحمہم اللہ کی مکمل
پیروی کی توفیق سے نوازا، اس عظیم نعمت پر ہم
بارگاہ ایزدی میں سجدٴہ شکر ادا کرتے ہیں اور دعا
کرتے ہیں کہ باری تعالیٰ ہمیں اور تمام مسلمانوں کو
اسی راہِ ہدایت پر استقامت عطاء فرمائے!( آمین)
اللہ تعالیٰ کی
حمدوثنا کے بعد آپ سبھی حضرات کی خدمت میں ہدیہٴ
تشکر وامتنان پیش کرنا بھی احقر کا خوشگوار فریضہ ہے کہ آپ
حضرات نے اپنی مصروفیات کے باوجود ہماری حقیر دعوت کو
شرفِ قبول بخشا اور سفر کی زحمت برداشت کرکے یہاں تشریف لائے،
بلاشبہ یہ دارالعلوم دیوبند کے ساتھ آپ حضرات کی قلبی
وابستگی اور اس پر بھرپور اعتماد کی دلیل ہے۔ اسی
کے ساتھ حقِ ضیافت کی ادائیگی میں کوتاہی پر
معذرت خواہ ہوں کہ ہم آپ حضرات کے شایانِ شان انتظام نہیں کرسکے، امید
ہے کہ آپ مادرعلمی سے اپنی عقیدت کی بناء پر ہماری
تقصیر سے درگذر فرمائیں گے، اللہ تعالیٰ اس اجلاس کو
بھرپور کامیابی سے ہمکنار فرمائے اور ہم سب کو اپنی مرضیات
پر چلنے کی توفیق سے بہرہ ور فرمائے! (آمین)
عالی وقار علماء کرام! اس اجلاس کی غرض وغایت
اوراس کی ضرورت واہمیت سے آپ حضرات بخوبی واقف ہیں، جیساکہ
دعوت نامہ میں بھی عرض کیاجاچکا ہے کہ یہ اجلاس اس مقصد
کے لیے بلایاگیا ہے کہ ہمارے غیرمقلد بھائی جو اپنے
آپ کو اہل حدیث کے نام سے موسوم کرتے ہیں، ان کی جانب سے مختلف
علاقوں میں بار بار سامنے آنے والی صورتِ حال پر غور کیا جائے
اور اس کے تدارک کی تدبیریں کی جائیں۔
صورتِ حال یہ
ہے کہ غیرمقلدین نے گذشتہ چند سالوں سے اپنی سرگرمیوں کو
تیز کرنے کے ساتھ جارحانہ انداز اختیار کرلیا ہے، وہ مختلف
علاقوں میں سیدھے سادے عوام یا دینی علوم سے ناواقف
جدید تعلیم یافتہ مسلمانوں کو حدیث پر عمل کے نام سے
گمراہ کرتے ہیں اور یہ تاثر دیتے ہیں کہ گویا حدیث
پر عمل کرنے کا شرف صرف ان کو ہی حاصل ہے، باقی تمام لوگ احادیث
کے تارک ہیں، یعنی وہ تمام مسلمان جو دین پر عمل کرنے اور
قرآن وحدیث کو سمجھنے کے لیے حضراتِ ائمہ اربعہ رحمہم اللہ سے رہنمائی
حاصل کرتے ہیں اور اُن میں سے کسی امام کی تقلید
کرتے ہیں، وہ سب تارکِ حدیث ہیں، گمراہ ہیں، باطل پرست ہیں،
اور اب تو نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ غیرمقلدین، بغیر
کسی تکلف کے حضراتِ ائمہ پر زبانِ طعن دراز کرنے لگے ہیں؛ بالخصوص
حضرت امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ، اُن کی گستاخیوں کا خاص
نشانہ ہیں، اور اس بات کو تو بدبختی کی انتہاء ہی کہا
جائے گا کہ اِن میں سے کچھ لوگ، حضراتِ صحابہٴ کرام رضوان اللہ علیہم
اجمعین کی شانِ اقدس میں بھی گستاخی کی جسارت
کرجاتے ہیں۔
اس جارحانہ رویہ کے نتیجہ میں
بہت سے مقامات پر نزاعی صورت پیدا ہوچکی ہے، اور بعض جگہ
مسلمانوں کی اپنے اسلاف سے وابستگی بھی متاثر ہورہی ہے؛
بالخصوص جن آبادیوں کے لوگ بڑی تعداد میں خلیجی
ممالک میں ملازمت کرتے ہیں، وہاں یہ فتنہ زیادہ اثر انداز
ہورہا ہے، بعض علاقوں میں اُن کی تنظیموں نے اپنے باتنخواہ
نمائندے مقرر کررکھے ہیں، جو مسلسل اس فتنہ کی اشاعت میں سرگرم
ہیں؛ خلاصہ یہ کہ فتنہٴ غیرمقلدیت بڑی تیزی
کے ساتھ پھیل رہا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں
کہ اہلِ حق کے نمائندے اپنے اپنے طور پر اس فتنہ کے تعاقب میں سرگرم ہیں،
جیساکہ دارالعلوم دیوبند میں وقتاً فوقتاً آنے والی
اطلاعات سے اندازہ ہوتا ہے، یا دارالعلوم کے خدام خود مختلف علاقوں میں
جاکر دیکھتے ہیں، بعض شہروں میں تحفظِ سنت کے نام سے انجمنیں
قائم کرکے کام ہورہا ہے۔ مدارس کے اساتذہ اور مساجد کے ائمہ اپنے اپنے دائرٴہ کار میں اپنی بساط بھر محنت کررہے
ہیں۔ اورخود دارالعلوم دیوبند میں تحفظ سنت کے نام سے
مستقل شعبہ کئی سال سے قائم ہے، جس میں اس موضوع پر طلبہ کی تربیت
کا کام بھی جاری ہے اور حسبِ ضرورت ملک کے مختلف حصوں میں اس
فتنہ کے تعاقب کی کوششوں میں بھی حصہ لیا جاتا ہے۔
لیکن اب حالات کا تقاضہ یہ
ہے کہ یہ کام پہلے سے زیادہ باقاعدگی کے ساتھ مربوط ومسلسل
انداز میں کیا جائے اور اس کے لیے کوئی مناسب لائحہٴ
عمل طے کیا جائے، اسی مقصد کے لیے آپ حضرات کو زحمت دی گئی
ہے۔
ملی اتحاد کی
ضرورت اور دارالعلوم دیوبند کاموقف
علماء عالی
مقام!اس موقع پر یہ بات مستحضر رکھنا نہایت ضروری ہے کہ
ہمارا مقصد، اختلاف وانتشار کو ختم کرنا ہے، اس کو بڑھاوا دینا نہیں
ہے، دارالعلوم دیوبند نے ہمیشہ ملت کو اتحاد کا پیغام دیا
ہے، اور اس کے لیے سنجیدہ عملی کوششیں کی ہیں،
اس سلسلے میں ہمارے اکابر کے موقف کا خلاصہ یہ ہے کہ امت کو ہرحال میں
قرآن وسنت کا پابند رہنا اور کتاب وسنت کی تشریح اور ان پر عمل کے بارے
میں حضراتِ صحابہٴ کرام
اور ائمہ واسلاف کے منہاج پر کاربند رہنا ضروری ہے، اور جو لوگ اس متوارث
طرزِ فکر وعمل کے خلاف نئی باتیں پیش کریں اور امت کو
انتشار میں مبتلا کریں ان کی تردید کرنا اور ان کی
غلطی کو واضح کرنا، علماءِ امت کا فرض منصبی ہے؛ اس لیے کہ رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حاملینِ علم دین کے یہی
فرائض درج ذیل حدیث میں وضاحت سے بیان فرمائے ہیں:
عَنْ ابْرَاھِیْمَ بْنِ
عَبْدِ الرَّحمٰنِ الْعَذْرِي رَضِيَ اللہ عَنْہُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ
اللہِ صلی اللہ علیہ وسلم: یَحْمِلُ ھَذَا الْعِلْمَ مِنْ کُلِّ
خَلْفٍ عَدُوْلُہ یَنْفُوْنَ عَنْہُ تَحْرِیْفَ الْغَالِیْنَ
وَانْتِحَالَ الْمُبْطِلِیْنَ وَتَأوِیْلَ الْجَاھِلِیْنَ․(مشکوٰة المصابیح،ص:۳۶)
ترجمہ: حضرت ابراہیم بن عبدالرحمن عذری رضی
اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے
ارشاد فرمایا: اس علم کو ہر بعد والی نسل کے عادل لوگ حاصل کریں
گے، جو اس سے غلو کرنے والوں کی تحریفات، اہلِ باطل کے غلط انتساب،
اور بے علم لوگوں کی تاویلات کو دور کریں گے۔
اس حدیث مبارک کی روشنی
میں سب خدام علم دین کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ امت
کو علمی وفکری اعتبار سے نئے نئے مسائل میں الجھانے والے لوگوں
سے آگاہ کریں اور مقدوربھر کوشش کریں کہ امت بدعات وخرافات اور نِت
نئے افکار واجتہادات سے محفوظ رہے۔
لیکن یہ کام امتِ مسلمہ کا
اندرونی معاملہ ہے، ہمیں ان اختلافات کو آپس میں سلجھانے کی
کوشش کرنی چاہیے اور ایسے کسی بھی طرزِ عمل سے پرہیز
کرنا چاہیے جس سے اسلام دشمن طاقتیں فائدہ اٹھاسکیں۔ جہاں
تمام مسلمانوں کے مشترکہ مسائل کا معاملہ ہو، وہاں ہمیں امتِ واحدہ ہونے کا
ثبوت دینا چاہیے۔ اسی جذبہ کے تحت دارالعلوم دیوبند
نے فروری ۲۰۰۸/ میں ”دہشت گردی مخالف کل ہند کانفرنس“ کا اہتمام کیا
اوراس میں ملتِ اسلامیہ کے تمام مکاتبِ فکر کے نمائندوں کو دعوت دی،
جس کا خاطر خواہ فائدہ بھی سامنے آیا۔ اس موقع پر حضرت مولانا
مرغوب الرحمن صاحب نوراللہ مرقدہ سابق مہتمم دارالعلوم دیوبند کے خطبہٴ
صدارت کا یہ اقتباس پوری ملت کی توجہ کا مستحق ہے:
”آج کے پُرآشوب
حالات میں امتِ مسلمہ کا اتحاد گذشتہ ہر دور سے زیادہ ضروری ہوگیا
ہے، کیا یہ ممکن نہیں ہے کہ ہم اپنے فروعی اختلافات کو
اپنے گھر تک محدود رکھیں اور دشمنوں کے مقابلہ میں ایک متحد امت
کا کردار پیش کریں؟ کیا ہمارے لیے صحابیِ رسول صلی
اللہ علیہ وسلم حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کا یہ عمل بہترین
اسوہ نہیں؟ کہ انھوں نے عین اس زمانے میں جب وہ سیدنا
حضرت علی رضی اللہ عنہ سے برسرپیکار تھے، روم کے بادشاہ کی
جانب سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے خلاف متحدہ محاذ بنانے کی
دعوت کو پائے حقارت سے ٹھکرادیا اور ملت میں تفریق کے اُس داعی
کو یَا کَلْبَ الرُّوْمِ کے الفاظ سے مخاطب کرکے ٹھوس لفظوں میں بتادیا کہ
اگر اُس نے حضرت علی
کے زیرحکومت علاقوں کی طرف نظر اٹھاکر بھی دیکھا تو حضرت
علی کے لشکر کے سب سے پہلے سپاہی کا
نام معاویہ
ہوگا، آج اس کردار کو زندہ کرنا وقت کی آواز ہے، ضرورت ہے کہ ہم اس آواز کو
سنیں اور اسی کے مطابق اپنا لائحہٴ عمل تیار کریں۔
(خطبہ صدارت دہشت گردی مخالف کل
ہند کانفرنس منعقدہ ۲۵/فروری ۲۰۰۸/)
حضراتِ گرامی!ایک
طرف تو دارالعلوم دیوبند اور اس سے وابستہ امت کے سوادِ اعظم کا یہ
متوازن اندازفکر اور طرزِ عمل ہے۔ دوسری طرف غیرمقلدین کا
یہ طریقہ کہ انھوں نے نہ صرف علماء دیوبند کو؛ بلکہ تمام ہی
ائمہ واسلاف کے متبعین ومقلدین کو گمراہ قرار دینے کا سلسلہ جاری
کررکھا ہے۔
غیرمقلدین
کے جارحانہ افکار کا خلاصہ
اگر آپ غیرمقلدین کی
کتابوں کا جائزہ لیں اور ان کی روشنی میں ان کے افکار کا
خلاصہ کریں تو بڑی بھیانک تصویر سامنے آتی ہے،
مختصراً عرض ہے کہ:
(۱) غیرمقلدین حضرات صحابہ رضی اللہ عنہم کے بارے
میں، جمہورِامت کے خلاف رائے رکھتے ہیں، حضراتِ صحابہ کو حجت نہیں مانتے؛ بلکہ اُن کے
بارے میں نازیبا تعبیرات استعمال کرنا، ان کے علماء کا عام
معمول ہے، یہاں تک کہ خلفاء راشدین اور دیگر اکابر وفقہاء صحابہ کے بارے میں، کتاب وسنت سے ناواقفی،
نصوص کے خلاف عمل، موٹے موٹے مسائل میں غلطی، قرآنی حکم میں
تبدیلی اور غصہ میں غلط فتویٰ دینے جیسے
الزامات اور گستاخانہ الفاظ، غیرمقلدین کی کتابوں میں عام
ہیں۔
(۲) غیرمقلدین اجماع کے خلاف راستہ اختیار کرتے ہیں۔
(۳) یہ لوگ سلفِ صالحین؛ بلکہ احادیث سے ثابت
قرآنی تفسیروں کے مقابلہ میں اپنی من مانی تفسیروں
کو ترجیح دیتے ہیں۔
(۴) اختلافی فروعی مسائل میں شدت اِن کا خاص شعار
ہے، جن مسائل میں ایک سے زائد آراء کی گنجائش ہے ان میں
سے ایک ہی پہلو کو حق اور دوسرے کو باطل قرار دینا اِن کا معمول
ہے؛ جبکہ یہ طرزِ فکر جمہور علماءِ امت کے نزدیک غلط ہے۔
(۵) یہ لوگ ائمہ مجتہدین، فقہاء ومحدثین اور اولیاء
اللہ کی شان میں گستاخی کرتے ہیں۔
(۶) یہ فرقہ اپنے علاوہ تمام طبقاتِ امت کو گمراہ اور بدعتی
یا مشرک سمجھتا ہے۔
اس فرقہ کے یہ افکار وعقائد ان کی
کتابوں میں عام ہیں (تفصیل کے لیے دیکھئے ”مجموعہٴ
رسائل ومقالات“ شائع کردہ جمعیة علماء ہند ومکتبہ دارالعلوم دیوبند)
یہ غیرمقلدین کے طرزِ
فکر کو واضح کرنے کے لیے اُن کے افکار کا اجمالی جائزہ تھا، جس پر غور
کرکے کوئی بھی صاحبِ علم بآسانی اندازہ کرسکتا ہے کہ یہ
طرزِ فکر، قرآن وسنت اور اسلاف کے طرزِ فکر سے قطعی طور پر متصادم ہے۔
صحیح فکر جس پر امت کا سوادِ اعظم متفق ہے، وہ یہ ہے کہ اختلافی
مسائل میں شدت اختیار نہ کی جائے اور جہاں بھی قرآن وسنت
کی نصوص کی روشنی میں دوپہلو ممکن ہوں، ان میں ایک
ہی پہلو میں حق کو منحصر نہ قرار دیا جائے۔
اختلافی
مسائل میں عدمِ تشدد اور اسلاف واکابر کا موقف
جہاں تک اختلافی مسائل میں
توسع کی بات ہے اور صلاحیتِ اجتہاد رکھنے والے لوگوں کے الگ الگ موقف
رکھنے کی گنجائش کا مسئلہ ہے، اس کے لیے سب سے واضح دلیل غزوٴہ
بنوقریظہ کے موقع پر آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ طرزِ عمل
ہے جو آپ نے حضراتِ صحابہ
کی ان دونوں جماعتوں پر نکیر نہ فرماکر پیش کیا، جن میں
سے ایک جماعت نے عصر کی نماز بنوقریظہ میں پہنچ کر پڑھنے
کے حکم پر اس طرح عمل کیا کہ وقت ختم ہونے کے باوجود راستے میں عصر
ادا نہیں کی؛ جبکہ دوسرے فریق نے یہ سمجھا کہ مقصود جلد
پہنچنا تھا؛ لیکن جب راستے میں عصر کی نماز فوت ہونے کا خطرہ ہے
تو راستے ہی میں نمازِ عصر ادا کرلینا ضروری ہے۔ آپ
حضرات واقف ہیں کہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی فریق
پر نکیر نہ فرماکر یہ واضح فرمادیا کہ امت میں اجتہاد کی
صلاحیت رکھنے والے لوگ اگر ایک ہی نص کو دو طریقے سے
سمجھتے ہیں اور اس کی بناء پر ایک دوسرے سے بالکل مختلف رائے
رکھتے ہیں تو کسی پر ملامت نہیں کی جاسکتی۔
اسی کی روشنی میں
ائمہ واسلاف کا طرز عمل یہی رہا کہ اختلافی مسائل میں
تشدد نہ اختیار کیا جائے، خاص طور پر جن مسائل میں ایک سے
زائد موقف ہوسکتے ہیں، ان میں کسی ایک کو متعین طور
پر حق اور دوسرے کو حتمی طور پر باطل قرار نہ دیا جائے، اس کے ثبوت میں
متقدمین ومتاخرین کی بہت سی عبارتیں پیش کی
جاسکتی ہیں؛ لیکن اختصار کے پیش نظر ہم یہاں صرف شیخ
الاسلام علامہ ابن تیمیہ رحمة اللہ علیہ کی عبارت پیش
کرنے پر اکتفاء کرتے ہیں، علامہ فرماتے ہیں:
فَالْوَاجِبُ عَلي کُلِّ مُوٴْمِنٍ مُوَالاَةُ الْمُوٴْمِنِیْنَ
وَعُلَمَاءِ الْمُوٴْمِنِیْنَ وَانْ یَقْصِدَ الْحَقَّ وَیَتَّبِعَہ
حَیْثُ وَجَدَہ وَیَعْلَمَ اَنّ مَنْ اجْتَھَدَ مِنْھُمْ فَاَصَابَ
فَلَہ أجْرَانِ، وَمَنْ اجْتَھَدَ مِنْھُمْ فَاَخْطَأَ فَلَہ أَجْرٌ لاِجْتِھَادِہ،
وخَطْوٴُہ مَغْفُوْرٌ لَہ، وَعَلٰی الْمُوٴْمِنِیْنَ
اَنْ یَتَّبِعُوْا امَامَھُمْ اذَا فَعَلَ مَا یَسُوْغُ؛ فَانَّ
النَّبِيَّ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ: ”اِنَّمَا جُعِلَ الاِمَامُ لِیوٴُتَمَّ
بِہ“ وَسَوَاءٌ رَفَعَ یَدَیْہِ أَوْلَمْ یَرْفَعْ یَدَیْہِ
لاَ یَقْدَحُ ذٰلِکَ فِيْ صَلاَتِھِمْ وَلا یُبْطِلُھا لاَ
عِنْدَ اَبِيْ حَنِیْفَةَ وَلاَ الشَّافِعِي وَلاَ مَالِکٍ وَلاَ اَحْمَد․ وَلوْ رَفَعَ الامَامُ دُوْنَ الْمَامُوْمِ اَوِالْمَامُومُ
دُوْنَ الامَامِ لَمْ یَقْدَحْ ذٰلِکَ فِيْ صَلاَةِ وَاحدٍ مِّنْھُمَا
وَلَوْ رَفَعَ الرَّجُلُ فِيْ بَعْضِ الأَوْقَاتِ دُوْنَ بَعْضِ لَمْ یَقْدَحْ
ذٰلِکَ فِيْ صَلاَتِہ وَلَیْسَ لِأَحَدٍ اَنْ یَتخِذَ قَوْلَ
بَعْضِ الْعُلَمَاءِ شِعَارًا یُوْجِبُ اتَّبَاعَہ وَیَنْھیٰ
عَنْ غَیْرِہ مِمَّا جَائَتْ بِہ اَلسُنَّةُ بَلْ کُلُّ مَا جَائَتْ بِہ
السُّنَّةُ فَھُوَ وَاسِعٌ: مِثْلَ الأَذَانِ وَالاقَامَةِ فَقَدْ ثَبَتَ فِيْ
الصَّحِیْحَیْنِ عَن النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وسلم
”اَنَّہ (أَمرَ بِلَالاً أَنْ یَشْفَعَ الأَذَانَ وَیُوْتِرَ
الاقَامَةَ“ وَثَبَتَ عَنْہُ في الصَّحِیْحَیْنِ ”أنَّہ عَلَّمَ أَبَا
مَحْذُوْرَةَ الاقَامَةَ شَفْعًا شَفْعًا کالْأَذَانِ) فَمَنْ شَفَّعَ الاقَامَةَ
فَقَدْ أَحْسَنَ وَمنْ أَفْردَھَا فَقَدْ أَحْسَنَ وَمَنْ أوْجَبَ ھَذَا دُوْنَ ھٰذَا
فَھُوَ مُخْطِیٴٌ ضَالٌّ وَمَنْ وَالیٰ مَنْ یَفْعَلُ
ھٰذَا دُوْنَ ھٰذَا بِمُجَرَّدِ ذٰلِکَ فَھُوَ مُخْطِیٴُ
ضَالٌ (فتاویٰ ابن تیمیہ، ج:۲۳، ص:۲۵۴)
ترجمہ:ہر بندٴہ
مومن پر، عام اہلِ ایمان اور علما سے محبت کرنا واجب ہے اور حق جہاں بھی
ہو اس کا قصد اور اتباع واجب ہے اور یہ جاننا بھی واجب ہے کہ مجتہد مصیب
کے لیے دو اجر کا وعدہ کیاگیا ہے اور اگر مجتہد سے اجتہاد میں
خطا ہوجائے تو اس کو اجتہاد کرنے پر اجر ملتا ہے اور اس کی خطا معاف کردی
جاتی ہے، اور اگر امام وہ عمل کررہا ہو جس کی شرعاً گنجائش ہے تو اہلِ
ایمان پر امام کا اتباع ضروری ہے؛ اس لیے کہ رسول اللہ صلی
اللہ علیہ وسلم نے اِنَّمَا جُعِلَ الاِمَامُ لِیُوٴْتَمَّ بِہ ارشاد فرمایا ہے؛ اس لیے
امام رفع یدین کرے یا نہ کرے نمازیوں کی نماز میں
کوئی نقصان نہیں، ان کی نماز نہ امام ابوحنیفہ کے یہاں باطل ہے نہ امام شافعی کے یہاں، نہ امام مالک کے یہاں اور نہ امام احمد کے یہاں، اسی طرح اگرامام
رفعِ یدین کرے، مقتدی نہ کرے یا اس کے برعکس ہو،تو یہ
ان میں سے کسی کی نماز میں کمی یا کوتاہی
کا سبب نہیں ہوگا،اوراگر بعض اوقات رفعِ یدین کیا جائے
اور بعض اوقات نہ کیاجائے تواس سے کسی کی نماز میں کوئی
نقصان نہیں ہوگا اور یہ کسی کے لیے جائز نہ ہوگا کہ وہ
بعض علماء کے قول کو ایسا شعار بنالے کہ اسی کے اتباع کو واجب قرار دے
اور سنت سے ثابت دوسرے پہلو سے لوگوں کو منع کرے؛ بلکہ وہ تمام صورتیں جو
سنت سے ثابت ہیں، ان سب کی گنجائش ہے، جیسے اذان واقامت کے بارے
میں، کہ بخاری ومسلم میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم
سے ثابت ہے کہ آپ نے حضرت بلال
کو کلماتِ اذان میں شفعہ اور کلمات اقامت میں ایتار کا حکم دیا
اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہی سے بخاری ومسلم میں
یہ بھی ثابت ہے کہ آپ نے حضرت ابومحذورہ کو کلماتِ اقامت میں اذان کی
طرح شفعہ شفعہ کی تعلیم دی؛ اس لیے جو اقامت میں
شفعہ کی صورت اختیار کرتا ہے تو وہ بھی درست ہے اور جو افراد کی
صورت اختیار کرتا ہے تو وہ بھی درست ہے، اور جو شخص ان صورتوں میں
سے ایک کو واجب قرار دے اور دوسری صورت کی اجازت نہ دے تو وہ
خطاکار اور گمراہ ہے اور جو ان میں سے ایک عمل کرنے والے سے محبت کرے
اور دوسرے سے محض اسی بنیاد پر محبت نہ کرے تو وہ خطا کار اور گمراہ
ہے۔
مسئلہٴ تقلید
اور اکابر دیوبند کا مسلکِ اعتدال
حضراتِ گرامی!علامہ ابن تیمیہ
رحمہ اللہ کی مذکورہ بالاعبارت سے جس توسع واعتدال کی طرف راہ نمائی
ہوتی ہے، وہی مزید جامعیت کے ساتھ مسلکِ دیوبند کا
طرٴہ امتیاز ہے۔ ایک طرف تو یہ حضرات دلائلِ شرعیہ
کی روشنی میں تقلید کو لازم اور ضروری قرار دیتے
ہیں، دوسری طرف اس میں غلو کو بھی درست نہیں سمجھتے۔
ان دونوں امور کی وضاحت کے لیے چند اکابر علماء دیوبند کی
عبارات پیش کردینا مناسب معلوم ہوتا ہے۔
سب سے پہلے تقلید کی ضرورت
اور اس کی حیثیت پر امامِ ربانی حضرت مولانا رشیداحمد
گنگوہی نوراللہ مرقدہ
کا فتویٰ ملاحظہ فرمائیں جو حضرت کی گہری بصیرت
اور تفقہ فی الدین کا شاہ کار ہے، حضرت فرماتے ہیں:
تقلیدِ مطلق فرض ہے فَاسْئَلُوْا أھْلَ الذِّکْرِ
انْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ :
حق تعالیٰ نے اس آیت میں مطلق تقلید کو فرض فرمادیا
ہے اور تقلید کے دوفرد ہیں؛ ایک شخصی کہ سب مسائل ضروریہ
ایک ہی عالم سے پوچھ کر عمل کرے، دوسرے غیرشخصی کہ جس
عالم سے چاہے دریافت کرلیوے اور بہ سبب آیت اپنے اطلاق کے دونوں
قسم تقلید کو متضمن ہے، لہٰذا دونوں قسم تقلید کی مامور
من اللہ تعالیٰ اور مفروض حق تعالیٰ کی طرف سے ہیں
اور جس فرد تقلید پر کوئی عمل کرے گا، حق تعالیٰ کے حکم
فرض کا عامل ہوگا، لہٰذا جو شخص تقلیدِ شخصی کو جو مامور ومفروض
من اللہ تعالیٰ ہے، شرک یا بدعت کہتا ہے، وہ جاہل وگمراہ ہے؛ کیونکہ
حق تعالیٰ کی مخالفت میں خدا تعالیٰ کے مفروض
کو شرک کہتا ہے اور نہیں جانتا کہ حق تعالیٰ نے جہاں مطلق حکم
فرمایا ہے، مکلف کو مختار فرمایا ہے کہ جس فردِ مقید پرچاہے عمل
کرے؛ کیونکہ مطلق کا من حیث الاطلاق کہیں خارج میں وجود
نہیں ہوتا؛ بلکہ اپنے افراد کی ضمن میں خارج میں موجود
ہوتا ہے۔ مثلاً انسان کا وجود من حیث الاطلاق کہیں جدا نہیں
پایا جاتا؛ بلکہ افراد کے ضمن میں ہی خارج میں ہوتا ہے، ایسا
ہی تقلید کا وجود جدا ہو اور شخصی اور غیرشخصی کا
جدا ہو یہ ہرگز ہرگز نہیں ہوسکتا؛ بلکہ تقلید جہاں کہیں
ہووے گی یا شخصی کے ضمن میں یا غیرشخصی
کے ضمن میں ہووے گی۔ لہٰذا دونوں قسم میں مکلف
مختار ہے، جس پر چاہے عمل کرے اور عہدٴہ امر سے فارغ ہووے۔
پس مامور من
اللہ تعالیٰ کو بدعت یا شرک کہنا خود معصیت ہے؛ بلکہ
دراصل دونوں نوعِ تقلید کے جواز میں یکساں ہیں؛ مگر اس
وقت میں کہ عوامُ الناس؛ بلکہ خواص پر بھی ہوائے نفسانی کا غلبہ
اور اعْجَابُ کُلِّ ذِيْ رَأیٍ بِرَأیِہ کا اور تقلیدِ غیرشرعی
ان کی ہو اور اعجاب کو عمدہ ذریعہ جواز واجراء کا ہوجاتاہے اور موجب
لااُبالی پن کا دین کی طرف سے اور سبب زبان درازی وتشنیع
کا شانِ مسلمین وائمہ مجتہدین میں اُن کے واسطے بن جاتا ہے اور
باعثِ تفرقہ وفسادکا باہم مسلمین میں ہوتا ہے؛ چنانچہ یہ سب
مشاہدہ ہے؛ لہٰذا ایسے وقت میں تقلید غیرشخصی
کا اختیار کرنا اس وجہ سے جہاں پر مفاسد برپا ہوتے ہیں درست نہیں
رہا اور فقط شخصی امتثال امر فَاسْئَلُوْا کے واسطے معین ومُشَخَّص
بحکمِ شرع ہوگئی ہے؛ کیونکہ اتفاق اوراتحاد رکنِ اعظم دین اسلام
کا ہے تو اس کی محافظت بھی فرضِ اعظم ہے قَالَ اللہُ تَعَالٰی
وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللہِ جَمِیْعاً وَلاَ تَفَرَّقُوْا (الآیة)․ انَّ اللہَ لاَ یُحِبُّ الْفَسَادَ (الآیة) اور اکثر احادیث اس باب میں وارد ہیں، لہٰذا
محافظت اس فرض اعظم کے واسطے اور رفع ان مفاسد وشنائع کی ضرورت سے ایک
شق مامور علی التَخْیِیْر سوال کو ترک کرنا اور دوسری شق
کو جو معین ومقوی اس فرضِ اعظم کو اور دافع شنائع مذکورہ کو ہے اختیار
کرنا عین حکم صحابہ وختم شارع علیہ السلام ہوگیا ہے؛ چنانچہ
قرأت قرآن شریف کی سبعة احرف میں مخیر تھی اور
باجماعِ صحابہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کو منع
کرکے ایک لغت قریش میں مقصور کردی اور یہ محض رفع
فساد وتفرقہ کی وجہ سے ہوا تھا۔
صحیح بخاری اس کی
شاہد ہے اور خود فخرِعالم علیہ السلام نے قتل ذوالخویصرہ کے باب میں
جو واجبُ القتل بسبب کلمات کفر وگستاخی فخرِعالم علیہ السلام کے تھا
فرمایا تھا دَعْہُ فَانَّ النَّاسَ یَقُوْلُوْنَ انَّ مُحَمَّدًا یَقْتُلُ
أصْحَابَہ․ اور یہ حکم بسبب فتنہ کے ہوا تھا لا غیر۔الحاصل
ایسے وقت نازک میں تقلید شخصی واجب مشخص ہے اور غیرشخصی
ان فتن مشاہدہ کے سبب ممنوع ہے؛ البتہ اگر کہیں یہ فساد غیرشخصی
میں نہ پایا جائے تو وہ بھی مامورعلی التخْییر
ہے مثل شخصی کے پس واضح ہوگیا کہ تقلیدِ شخصی واجب ہے اس
کو بدعت یا شرک کہنا جہلِ محض ہے۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔
(تالیفاتِ رشیدیہ مع فتاویٰ رشیدیہ،۶/۲۰۵)
یہ جامع فتویٰ تقلید
کی ضرورت پر ایک بیان شافی کی حیثیت
رکھتا ہے، اب اس کے بعد ملاحظہ فرمائیں کہ اس سلسلے میں علماءِ دیوبند
کس درجہ محتاط اور معتدل نقطہ نظر کے حامل ہیں، سب سے پہلے حضرت گنگوہی
نوراللہ مرقدہ کی یہ عبارت قابلِ توجہ ہے:
”الغرض بعد ثبوت
اس امر کے یہ مسئلہ اپنے امام کا خلاف کتاب وسنت کے ہے، ترک کرنا ہر مسلمان پر
لازم ہے، اور کوئی بعد وضوح اس امر کے اس کا منکر نہیں“۔ (سبیل
الرشاد،ص:۳۰)
حضرت شیخ الہند مولانا محمودحسن دیوبندی
نوراللہ مرقدہ، ایضاحُ الادِلّہ میں غیرمقلدین
کے طرزِ استدلال کی غلطی واضح کرتے ہوئے صراحت کے ساتھ فرماتے ہیں:
”خدا اور رسول کے مقابلہ میں خواہ کوئی ایک کی تقلید
کرے یا ہزار کی، اس کے بطلان میں کس کو کلام ہے۔“(ایضاح
الادلہ،ص:۲۲۹)
حکیم
الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی قدس سرہ فرماتے ہیں: ”بعض مقلدین نے
اپنے امام کو معصوم عن الخطا ومصیب وجوباً مفروضُ الاطاعت تصور کرکے عزم
بالجزم کیا کہ خواہ کیسی ہی حدیث صحیح مخالف
قولِ امام کے ہو اور مستند قولِ امام کا بجز قیاس امردیگر نہ ہو پھر
بھی بہت سے علل اور خلل حدیث میں پیدا کرکے یا اس کی
تاویل بعید کرکے حدیث کو رد کردیں گے، ایسی
تقلید حرام اور مصداقِ قولہ تعالیٰ اتَّخَذُوْا أحْبَارَھُمْ (الآیة) اور خلافِ وصیت ائمہٴ مرحومین ہے۔
(فتاویٰ امدادیہ،ج:۴،
ص:۸۸)
حضرات: مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اکابر دیوبند
کے مسلکِ اعتدال کی مزید وضاحت کے لیے اس جگہ حکیم
الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب قدس سرہ سابق مہتمم دارالعلوم
دیوبند کا درج ذیل اقتباس بھی ملاحظہ فرمالیا جائے، جس سے
زیربحث مسئلہ پر نہایت جامعیت واختصار کے ساتھ روشنی پڑتی
ہے، یہ اقتباس تاریخ دارالعلوم دیوبند کے مقدمہ سے ماخوذ ہے، جس
میں دارالعلوم کے فقہی وکلامی مذہب اور مسلک کی طرف بڑے قیمتی
اشارات آئے ہیں۔ فقہی مسلک کے بارے میں حضرت کی عبارت حسب ذیل ہے:
دارالعلوم کے فقہی مسلک کا اولین اصول یہ ہے
کہ الِاعْمَال اولٰی
مِنَ الْاِھْمال (کسی چیز
کو کام میں لے آنا اس کے بیکار چھوڑ دینے سے بہتر ہے) دنیا
کی خسیس سے خسیس چیز کو بھی دانشمند بیکار
ضائع نہیں جانے دیتے، چہ جائے کہ کسی اعلیٰ چیز
کو مہمل چھوڑ کر ضائع کردیں اور تمام اعلیٰ چیزوں میں
اعلیٰ ترین شے کلام نبوت اور کلام خداوندی ہے تو اُس کے
کسی بھی پہلو کو بیکار اور ناقابلِ عمل بنادینا، بلاشبہ
اس مسلک کی فطرت کے خلاف ہے، اس کا قدرتی نتیجہ یہ ہے کہ
احادیثِ مختلفہ میں جو حدیث منشاء شارع علیہ السلام سے زیادہ
اوفق اوراس سے اقرب ہوتی ہے، اسے بہ پیروی امام ابوحنیفہ اصل مذہب قرار دے کر بقیہ تمام روایات
کو اس کی ساتھ اپنے اپنے محل پر جوڑتے چلے جاتے ہیں، جس سے کوئی
حدیث بھی خارج از عمل نہیں ہوتی، بالفاظِ دیگر اُن
کے یہاں جمع بین الروایات اصل ہے، جس سے تطبیق و توفیق
کا راستہ پیدا ہوتا ہے، متخالف روایات کو ترک کیے بغیر
معقول اور منقول توجیہ سے اصل روایت کے تابع بناکر عمل کے دائرے میں
لے آتے ہیں، بیکار بناکر ضائع نہیں ہونے دیتے؛ تاکہ کلامِ
پیغمبر کا کوئی بھی پہلو خارج از عمل نہ رہنے پائے حتی کہ
حدیث مرسل کو بھی ترک کرنے کے بجائے اُس کی حجیت کو بھی
تسلیم کرتے ہیں؛ اس لیے ائمہٴ ہدایت کے تفقّہ سے پیدا
شدہ کوئی بھی پہلو کسی بھی روایت کا مسلک سے باہر
نہیں رہتا، جسے ہم یوں بھی تعبیر کرسکتے ہیں کہ
تمام ائمہ کے فقہی مراتب بحیثیت مجموعی اس مسلک میں
آجاتے ہیں، زیادہ سے زیادہ راجح ومرجوح یا افضل و مفضول یا
اصل وفرع یا عزیمت ورخصت کا فرق نکل سکتا ہے؛ البتہ کہیں کہیں
جائز وناجائز کا بھی فرق پیدا ہوتا ہے؛ مگر قلیل، سُو اس سے
فقہِ حنفی کی جامعیت اور دوسرے فقہوں کے برحق ہونے میں
کوئی فرق نہیں پڑتا، خواہ دونصوص باہم متعارض ہوں یا ایک
ہی نص کے دو پہلو فقہی طور پر متعارض ہوں؛ اس لیے اجتہادی
فروعات میں اختلاف تو ہوجاتا ہے؛ مگر خلاف و نزاع کی کوئی شکل پیدا
نہیں ہوسکتی کہ کسی فقہی مسلک سے اِعراض یا گریز
کی تہمت آئے؛ اس لیے ائمہٴ اجتہاد کی حقانیت وعظمت
بھی ان کی شان کے مناسب قائم رہی ہے، اور ان کے فقہی مسلک
کی صداقت وعظمت اور تعظیم و توقیر میں بھی فرق نہیں
آتا، پھر یہ اختلاف بھی حق وباطل کا نہیں ہوتا کہ باعثِ کش مکش
ہو؛ بلکہ محض خطاء وصواب کا ہوتا ہے جن میں سے کوئی بھی پہلو
اجر سے خالی نہیں اور ظاہر ہے کہ جب سارے فقہوں اور فقہیوں کے
اجتہادات اس طرح ایک مرکز پر جمع ہوکر درجہ بدرجہ اپنے اپنے مقام ومرتبہ کے
مناسب قائم رہتے ہیں تو نہ صرف یہ کہ نزاع وجدال کے رخنے مسدود ہوجاتے
ہیں؛ بلکہ قدرِ مشترک کے طور پر ایک مابہ الاتحاد بھی پیدا
ہوجاتا ہے، جس کے تحت یہ سارے فقہ اور فقہی مراتب نہ صرف معتبر ہی
ٹھہرتے ہیں؛ بلکہ ایک مرکز پر سمٹ آتے ہیں جو اس مسلک کی
جامعیت کی کھلی دلیل ہے۔ (تاریخِ دارالعلوم دیوبند
جلد اوّل، ص:۲۸، ۲۹)
فقہی اختلاف
کے بارے میں رابطہ عالم اسلامی مکہ مکرمہ کی قرارداد
علماء امت! راہِ اعتدال کی
وضاحت اپنے اکابر کی تحریروں سے تو آپ کے سامنے آگئی ہے اسی
موضوع سے متعلق رابطہ عالم اسلامی کی مجلس فقہی کی ایک
قرارداد پیش کردینا بھی مناسب معلوم ہوتا ہے؛ تاکہ جو لوگ سعودی
علماء کی طرف غلط باتیں منسوب کرکے سادہ لوح عوام کو گمراہ کرتے ہیں،
ان کی غلط بیانی سامنے آجائے اور یہ واضح ہوجائے کہ سعودی
عرب کے علماء بھی حضراتِ ائمہ اور ان کے مقلدین کے بارے میں غیرمقلدین
کے طرز عمل کو قطعاً غلط سمجھتے ہیں۔
یہ قرار داد، مجلس فقہی
رابطہ عالم اسلامی، مکہ مکرمہ نے ۲۴ تا ۲۸/صفر ۱۴۰۸ھ مطابق ۱۷ تا ۲۱/اکتوبر ۱۹۸۷/ کو منعقدہ اپنے دسویں اجلاس میں منظور کی تھی،
پھر اسی کو رابطہ کے اجلاس منعقدہ ۱۴۲۲ھ میں دوبارہ پیش کرکے منظور کیاگیا،
اور رابطہ کے ترجمان ”أخْبَارُ الْعَالَمِ الاسْلاَمِي“ میں یہ شائع ہوئی۔
اس قرار داد میں پہلے تو اعتقادی
اختلاف پر اظہارِ افسوس کرتے ہوئے پوری امت سے اہلِ سنت کے مذہب پر مجتمع
ہونے کی اپیل کی گئی ہے، اس کے بعد ائمہ کے فقہی
اختلاف کو علمی اسباب کا نتیجہ اور امت کے لیے اللہ کی
رحمت قرار دیتے ہوئے اس موضوع پر نہایت متوازن رائے کا اظہار کیاگیا
ہے۔ قرار داد طویل ہے، اس کا ضروری حصہ پیش کیا
جاتاہے:
فَھٰذَا النَّوْعُ الثَّانِيْ مِن اِخْتِلاَفِ الْمَذَاھِبِ،
وَھُوَ الْاِخْتِلاَفُ الْفِقْھِيُّ، لَیْسَ نَقِیْصَةً وَلاَ
تَنَاقُضاً فِيْ دِیْنِنَا وَلاَ یُمْکِنُ أنْ لاَ یَکُوْنَ،
فَلاَ یُوْجَدُ أمَّةٌ فِیْھَا نِظَامٌ تَشْرِیْعِيٌّ کَامِلٌ
بِفِقْھِہ وَاجْتِھَادِہ لَیْسَ فِیْھَا ھَذَا الاِخْتِلاَفُ الْفِقْھِيُّ
الْاِجْتِھَادِيُّ․
فَالْوَاقِعُ أنَّ ھٰذَا الاِخْتِلاَفُ لاَ یُمْکِنُ
أنْ لاَ یَکُوْنَ لِأنَّ النُّصُوْصَ الْأصْلِیَّةَ کَثِیْرًا
مَّا تَحْتَمِلُ أکْثَرَ مِنْ مَعْنًی وَاحِدٍ، کَمَا أنَّ النَّصَّ لاَ یُمْکِنُ
أنْ یَسْتَوْعِبَ جَمِیْعَ الْوَقَائِعِ الْمُحْتَمِلَةِ لِأنَّ
النُّصُوْصَ مَحْدُوْدَةٌ وَالْوَقَائِعُ غَیْرُ مَحْدُوْدَةٍ کَمَا قَالَ
جَمَاعَةٌ مِنَ الْعُلَمَاءِ رَحِمَھُمُ اللہُ تَعالٰی، فَلاَبُدَّ
مِنَ اللُّجُوْءِ الٰی الْقِیَاسِ وَالنَّظْرِ الٰی
عِلَلِ الأحْکَامِ وَغَرَضُ الشَّارِعِ وَالْمَقَاصِدُ الْعَامَّةُ للشَّرِیْعَةِ،
وَتَحْکِیْمُھَا فِي الْوَقَائِعِ وَالنَّوَازِلِ الْمُسْتَجِدَّةِ وَفِيْ ھٰذا
تَخْتَلِفُ فُھُوْمُ الْعُلَمَاءِ وَتَرْجِیْحَاتُھُمْ بینَ
الْاحتمالاتِ، فتختلفُ أحکامُھُمْ في المَوضُوعِ الْوَاحِدِ وَکُلٌّ مِنْھُمْ یَقْصِدُ
الْحَقَّ وَیَبْحَثُ عَنْہُ، فَمَنْ أصَابَ فَلَہ أجْرَانِ وَمَنْ أخْطَأ
فَلَہ أَجْرٌ وَاحِدٌ وَمَنْ ہُنَا تَنْشَأ السَّعَةُ وَیَزُوْلُ الْحَرَجُ․
فَأَیْنَ النَّقِیْصَةُ فِي وُجُوْدِ ھٰذَا
الاِخْتِلاَفِ الْمَذْھَبِي الَّذِيْ أوْضَحْنَا مَا فِیْہِ مِنَ الْخَیْرِ
وَالرَّحْمَةِ وَأنَّہ فِيْ الْوَاقِعِ نِعْمَةٌ وَرَحْمَةٌ مِنَ اللہِ بِعِبَادِہ
الْمُوٴمِنِیْنَ وَھُوَ فِيْ الْوَقْتِ ذَاتِہ ثَرْوَةٌ تَشْرِیْعِیَّةٌ
عُظْمٰی وَمَزِیَّةٌ جَدِیْرَةٌ بِأنْ تَتَبَاھٰی
بِھَا الْأُمَّةُ الاسْلاَمِیَّةُ وَلٰکِنْ الْمُضِلِّلِیْنَ
مِنَ الأجَانِبِ الَّذِیْنَ یَسْتَغْلُونَ ضُعْفَ الثَّقَافَةِ
الاسْلاَمِیَّةِ لَدیٰ بَعْضِ الشَّبَابِ الْمُسْلِمِ وَلاَ سِیِّمَا
الَّذِیْنَ یَدْرُسُوْنَ لَدَیْھِمْ فِي الْخَارِجِ فَیُصَوّرُوْنَ
لَھُمُ اخْتِلاَفَ الْمَذَاھِبِ الْفِقْھِیَّةِ ھٰذَا کَمَا لَوْ کَانَ
اخْتِلاَفاً اعْتِقَادِیّاً لِیُوْحُوا الَیْھِمْ ظُلْماً
وَزُوْراً بِأنَّہ یَدُلُّ عَلٰی تَنَاقُضِ الشَّرِیْعَةِ
دُوْنَ أنْ یَنْتَبِھُوْا الٰی الْفَرْقِ بَیْنَ
النَّوْعَیْنِ وَشَتَّانَ مَا بَیْنَھُمَا․
ثَانِیاً: وَأمَّا تِلْکَ الْفِئَةُ الْأُخْریٰ
الَّتِيْ تَعْدُوْ الٰی نَبْذِ الْمَذَاھِبِ وَتُرِیْدُ اَنْ
تَحْمِلَ النَّاسُ عَلٰی خَطٍ اجْتِھَادِيٍ جَدِیْدٍ لَھَا
وَتَطْعَنُ فِي الْمَذَاھِبِ الْفِقْھِیَّةِ الْقَائِمَةِ وَفِيْ أئِمَّتِھَا
أوْ بَعْضِھِمْ فَفِیْ بَیَانِنَا الأنفُ عَنِ الْمَذَاھِبِ الْفِقْھِیَّةِ
وَمَزَایَا وُجُوْدِھَا وَأتِمَّتِھَا مَا یُوْجِبُ عَلَیْھِمْ
أنْ یَکُفُّوْا عَنْ ھٰذا الْأُسْلُوْبِ الْبَغِیْضِ الَّذِيْ یَنْتَھِجُوْنَہ
وَیُضَلِّلُوْنَ بِہ النَّاسَ وَیَشُقُّوْنَ صُفُوْفَھُمْ، وَیُفَرِّقُوْنَ
کَلِمَتَھُمْ فِيْ وَقْتٍ نَحْنُ أحْوَجُ مَا نَکُوْنُ الٰی جَمْعِ
الْکَلِمَةِ فِيْ مُوَاجَھَةِ التَّحَدِّیَّاتِ الْخَطِیْرَةِ مِنْ
أعْدَاءِ الْاسْلاَمِ، بَدَلاً مِنْ ھٰذِہِ الدَّعْوَةِ الْمُفَرَّقَةِ
الَّتِيْ لاَ حَاجَةَ الَیْھَا․
وَصَلَّی اللہُ عَلٰی سَیِّدِنَا
مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰی اٰلِہ وَصَحْبِہ وَسَلَّمَ تَسْلِیْماً
کَثِیْرًا وَالْحَمْدُ للہِ رَبِّ الْعَالَمِیْن․
ترجمہ: اختلافِ مذاہب کی یہ
دوسری صورت یعنی فقہی اختلاف، ہمارے دینِ کامل میں
کسی نقص یا تناقض کی دلیل نہیں ہے اور یہ بات
ناممکن ہے کہ یہ اختلاف دنیا میں وجودپذیر نہ ہوکوئی
قوم ایسی نہیں پائی جاسکتی جس کے پاس قانون سازی
کا مجتہدانہ فقہی نظام موجود ہو اور یہ فقہی اجتہادی
اختلاف نہ پایا جاتا ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ اختلاف
نہ ہونا، ممکن ہی نہیں ہے؛ اس لیے کہ نصوصِ شرعیہ میں
اکثر ایک سے زائد معنی کا احتمال ہوتاہے، نیز نصوص میں
تمام ممکنہ وقائع کا احاطہ ممکن نہیں؛ اس لیے کہ نصوص محدود ہیں
اور وقائع غیرمحدود ہیں، جیساکہ علماء نے لکھا ہے؛ لہٰذا
اس کے بغیر چارہ نہیں ہے کہ قیاس کیا جائے، احکام کی
علتوں میں غور وفکر کیا جائے، شارع کے مقصد اور شریعت کے مقاصدِ
عامہ کو سامنے رکھا جائے اور نئے پیش آمدہ معاملات میں ان کے ذریعہ
فیصلہ کیاجائے، اسی چیز میں علماء کی فہم کا
اور مختلف احتمالات میں سے ایک کو ترجیح دینے کا اختلاف
سامنے آتا ہے تو ایک ہی مسئلہ میں ان کے فیصلوں میں
اختلاف ہوجاتا ہے جب کہ ان میں سے ہر ایک کا مقصد حق کی تلاش ہے۔
لہٰذا جو صحیح رائے تک پہنچ جائے گا اسے دو اجر ملیں گے اور جس
سے غلطی ہوگی اسے ایک اجر حاصل ہوگا یہی وہ بنیاد
ہے جس سے گنجائش پیدا ہوتی ہے اور تنگی دور ہوتی ہے۔
تو اس اختلاف کے وجود میں کیا
عیب ہے جس کی خیر اور برکت کی وضاحت ہم نے اوپر کی
ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے اپنے اہلِ ایمان بندوں
کے لیے نعمت ورحمت ہے، اسی کے ساتھ وہ قانون سازی کا عظیم
سرمایہ اور ایسی عظیم خصوصیت ہے جس پر یہ امت
فخر کرسکتی ہے؛ لیکن اغیار میں سے گمراہ کرنے والے لوگ جو
بعض مسلم نوجوانوں میں اسلامی تعلیم و تربیت کی
کمزوری کا غلط استعمال کرتے ہیں، خاص طور سے جو نوجوان بیرونِ
ملک تعلیم حاصل کرتے ہیں تو وہ ان کے سامنے اس اختلاف کی ایسی
تصویر کھینچتے ہیں، جیسے یہ کوئی اعتقادی
اختلاف ہو اور ان کی زیادتی اور کذب بیانی یہ
ہے کہ وہ ان جوانوں کے ذہنوں میں یہ بات ڈالتے ہیں کہ یہ
اختلاف شریعت کے تناقض کی دلیل ہے۔ اس طرح وہ دونوں قسم
کے اختلاف میں فرق نہیں کرتے؛ حالانکہ ان میں بڑا فرق ہے۔
ثانیاً:
رہا وہ دوسرا گروہ جو تمام مذاہبِ فقہیہ کو چھوڑ دینے کا داعی
ہے، اور لوگوں کو اپنی نئی اجتہادی راہ پر لے جانا چاہتا ہے اور
موجودہ مذاہبِ فقہیہ اور ان کے تمام یا بعض ائمہ کے بارے میں
زبانِ طعن دراز کرتا ہے تو ہمارے مذکورہ بالا بیان میں فقہی
مذاہب، ان کے وجود کی خصوصیت ومصلحت اور ان کے ائمہ کے بارے میں
جو امور مذکور ہوئے، وہ اس گروہ کے لوگوں پر یہ بات واجب کرتے ہیں کہ
وہ اپنا یہ ناپسندیدہ طرزِعمل چھوڑدیں جس سے وہ لوگوں کو گمراہ
کرتے ہیں اور ان کی صفوں میں اختلاف پیدا کرتے ہیں
اور ان میں تفریق ڈالتے ہیں اور وہ بھی ایسے وقت میں
جب ہم سب کودشمنانِ اسلام کے خطرناک چیلنجوں کے مقابلے کے لیے اتحاد کی
سب سے زیادہ ضرورت ہے، نہ کہ اس تفریق پیدا کرنے والی تحریک
کی جو قطعاً بے ضرورت ہے۔
حضراتِ علماء کرام! مذکورہ بالا تفصیلات یہ واضح کرنے کے
لیے کافی ہیں کہ جماعت غیرمقلدین کا طرزِ فکر اور
طریقہٴ عمل دونوں ہی علماء امت کے تمام طبقات کے نزدیک
غلط اور بے بنیاد ہیں؛ اس لیے ہم سب کی یہ ذمہ داری
بنتی ہے کہ ہم اختلاف وانتشار کی اس تحریک کے خلاف بھرپور
جدوجہد کے لیے تیار ہوجائیں؛ تاکہ امتِ مسلمہ اس کے نقصانات سے
محفوظ ہوجائے اور اپنے اسلاف واکابر کے نقشِ قدم پر حسبِ سابق مضبوطی سے
گامزن ہوجائے، اس وقت ہمیں اپنی اسی ذمہ داری کی
تکمیل کے لیے مناسب طریقوں پر غور کرنا ہے۔
اس مقصد کے لیے باہمی مشورہ
سے جو بھی طریقِ کار طے ہوگا اس کے مطابق ہم سبھی کو اقدامات
کرنے کے لیے تیار رہناہے، ان شاء اللہ!
اس موقع پر ایک
بھائی کی حیثیت سے یہ گذارش کرنا چاہتا ہوں کہ یہ
کام پوری دل سوزی، دردمندی، اخلاصِ نیت اور بھرپور علمی
تیاری کے ساتھ کیا جائے اور ہر وقت یہ بات نگاہوں کے
سامنے رہے کہ امتِ مسلمہ کو انتشار پیدا کرنے والے عناصر سے بچانا اور اسلاف
کے نقوشِ راہ کو واضح کرنا ہمارا مقصد ہے اور یہی تمام اکابرِ دیوبند
کا مشن اور نصبُ العین ہے۔
اخیر میں ایک بار پھر
آپ حضرات کی ضیافت میں کوتاہی کے لیے دل کی
گہرائیوں سے معذرت خواہ ہوں۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنی
مرضیات پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے اور اس اجلاس کو مُثْمِرِخیرات
وبرکات فرمائے، آمین۔
واٰخر دعوانا ان الحمد
للہِ رب العٰلمین․
والسلام
(مولانا
مفتی) ابوالقاسم نعمانی (صاحب)
مہتمم دارالعلوم دیوبند
***
-------------------------------
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ 3 ،
جلد: 97 ، جمادی الاولی 1434 ہجری مطابق مارچ 2013ء